ہماری آج کی خواتین کل کی خواتین کے مقابلے میں اپنی صحت اور حسن کی حفاظت کیلئے زیادہ فکر مند ہیں۔ خواتین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ مٹاپا نہ صرف ان کی صحت بلکہ حسن کا بھی دشمن ہے۔ ہر زمانے میں معاشرہ کا دستو ر رہا ہے کہ اعلیٰ طبقہ کا انداز رہن سہن کے طور متو سط اور غریب طبقہ کیلئے باعث کشش رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں طبقات امراء کا ہر انداز آنکھیں بند کر کے بغیر سوچے سجھے اپناتے چلے آئے ہیں۔ ایک دور تھا جب انواع واقسام کے مرغن کھانے صرف بادشاہوں اور امراء کے ستر خوانوں تک محدود نظر آتے تھے ۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ انداز متوسط اور غریب گھروں میں بھی نظر آنے لگا ۔ یہی سبب ہے کہ آج ہمارا پورا معاشرہ مرغن چٹ پٹے کھانو ں کا عادی ہو چکا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق مرغن اور مسالے والے کھانے وزن بڑھانے کاسبب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ دور جدید میں ذرائع ابلاغ کی بدولت عورت کی نازک اندامی خوب صورتی کا پیمانہ قرار پائی۔ ان تمام باتوں کا اثر سب سے پہلے اعلیٰ طبقہ کی خواتین نے لیا۔ کیونکہ دیگر خواتین کے مقابلے میں ان اثر انگیز ذرائع تک ان کو رسائی کا بہتر مواقع حاصل تھے۔بلکہ وزن کی زیادتی کے تدارک کیلئے استعمال ہونے والے ذرائع تک ان کو دسترس حاصل تھی۔ پھر آہستہ آہستہ مٹاپے کے منفی اثرات کا شعور عام خواتین میں بھی پروان چڑھنا شروع ہوا بلکہ شعور یا ضرورت سے زیادہ اسے فیشن کا درجہ دے دیا گیا۔
مٹاپے کی ایک اہم وجہ وراثت ۔جسم میں چکنائی کم یا زیادہ جزب کرنے کی صلاحیت بعض افراد کو پیدا ئشی طور پر والدین سے ورثے میں ملتی ہے دوسری طرف مرداور عورت میں چکنا ئی جمع کرنے والے اعضاء مختلف ہوتے ہیں۔مردوں میں چکنا ئی کا اضافہ عموماً پیٹ پر ظاہر ہو تا ہے ۔جبکہ خواتین میں کو لہوں، رانوں اور سینے کے حصے زیادہ چکنا ئی جمع کرتے ہیں۔ مٹاپے کا ہم سبب غذائی معمولات اورشعور کی کمی ہے کیونکہ ہمارے یہاں اکثریت کویہ معلوم ہی نہیں کہ مٹاپا صحت ہے یا بیماری ؟ خواتین میں مردوں کے مقابلے میں مٹاپے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان کا جسمانی نظام ہے۔ اس سلسلہ میں ہم خواتین کو تین گروپس میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ شادی شدہ ، نوعمریا غیر شادی شدہ ، عمر رسید ہ ، شادی شدہ خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اند رونی تبدیلیوں کے باعث مٹاپے کا شکار ہوتی ہیں۔جبکہ غیر شادی شدہ ماہانہ نظام میں خرابی اور عمر رسید ہ ماہانہ نظام بند ہونے کے باعث ۔ اس کے علاوہ جسمانی ، ذہنی اور جزباتی ہیجان میں اضافہ اس کا اہم سبب ہے۔ فلموں ، رسالوں اور ڈراموں کی وجہ سے خواتین کے جزباتی ہیجان میں اضا فہ ہو رہا ہے۔ ان کے سبب ایام متاثر ہو رہے ہیں ۔ انسانی جسم ایک دفعہ مٹاپے کا شکار ہو جائے تو اس کا دُبلا ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر فوری اس رجحان پر قابوپا لیا جائے تو دبلا ہونا آسان ہو جا تا ہے۔ مٹاپا کی اہم وجہ غذا کی زیادتی ہے اور زیادہ کھانے کی وجہ عموماًنفسیاتی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ جن میں خواتین کی اکثریت شامل ہے ذہنی نا آسودگی کا شکار ہیں اور یہ بات نوے فیصد درست ہے۔ کہ اکثر لوگ پریشانی میں زیادہ کھاتے ہیں۔ اگر ذہنی مسائل ، پریشانیاں اور الجھنیں کم ہوں تو مٹا پے پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ خواتین میں غذا یا جسمانی نظام میں خرابی زیادہ معاشرتی روایات مٹاپے کا سبب بنتی ہیں۔ ہماری عورتوں کو جسمانی ورزشوں کے زیادہ موقع میسر نہیں ہیں۔ چنانچہ مٹاپے کا شکار ہونے کے بعد اکثر خواتین وزن میں کمی کیلئے ڈائیٹنگ کرتی ہیں لیکن وہ اس بات سے باخبر ہوتی ہیں۔ کہ ان کیلئے بہتر غذا کیا ہوگی۔ مثال کے طور پر ایک عورت کو گردے کی تکلیف ہے اور دوسری عورت ذیا بیطس کی مریضہ ہے دونوں وزن کم کرنا چاہتی ہیں۔ دونوں کیلئے غذا ئی احتیاط بالکل مختلف ہوگی اور ا س غذا کا تعین کوئی ماہر غذائیت ہی کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آب وہوا اور طرز معاشرت کابھی غذا کا تعین میں اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ طے کرنا کہ کیا کھایا جائے اور کیا نہیں تعلیم کے بغیر ناممکن ہے۔ عموماً خواتین شادی کے بعد مٹاپے کا شکار زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس کی وجہ شادی نہیں بلکہ زندگی کے معمولات میں تبدیلی ہے وہ ایک نئے گھر میں جاتی ہے۔ جہاں نئے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ نفسیاتی طور پر ان کے ذہن پر منفی اثر پڑتا ہے ۔ وہ اپنے والدین ،بہن ،بھائی کو یاد کر تی ہے اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں ۔ تحقیق کے مطابق انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو اس کی خوراک بھی بڑ ھ جاتی ہے۔ ایسے معاملات میں ضروری ہے کہ مریضہ کا نفسیاتی علاج ک جائے ۔ پھر وزن میں کم کی جائے۔
غذا، عمر اور کام کی نوعیت میں توازن نہ رہے تو جسم میں پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ مر اور خواتین دونوں میں عموماً 40 برس کے بعد بدن پھیلتا ہے ۔ سبب یہ ہے کہ غذائی ضرورت کم ہو جاتیں ہیں۔ کیو کہ اس عمر میں جسم بن چُکا ہوتا ہے۔ وزن کی زیادتی کی دوسری وجہ مشقت کا کم کرنا ہے۔ ہماری زندگی بہت آسودہ ہو گئی ہے ۔ پیدل چلنا زندگی سے نکل گیا ہے۔ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کا کام تو بیٹھنے کا ہے۔ مگر ذرا ذرا سے کام کیلئے چپڑاسی کی مددلی جاتی ہے۔ گھریلوں خواتین بھی زیادہ محنت طلب کام نہیں کرتیں۔ اعلیٰ گھرانے کی خواتین کے علاوہ متوسط گھرانوں کی خواتین بھی اپنی معمولی گھریلوں کام کاج کیلئے نوکرانیوں کی مدد حاصل کرتی ہیں۔ ورزش اور چہل قدمی کا کوئی تصور نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اکثر خواتین کے جسم بھاری نظر آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خواتین سوتی بہت زیادہ ہیں۔ ایسے میں چکنا ئی والے یا میٹھے اجزا سوائے جسم میں چربی بنانے کے کوئی دوسرا کام نہیں کرتے ۔ یہ چربی کی زیادتی ہے کہ دل کے امراض ، شوگر اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض لگ جاتے ہیں ۔
توانائی کوئی آسمان سے نازل ہونے والی چیز نہیں ہے اور نہ ہی اسے سپرمارکیٹ سے خریدا جا سکتا ہے۔ صحت مند ی بے شک خدا کی طرف سے ملتی ہے لیکن انسان کو اسے برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد بھی کرنی ہوتی ہے اگر جسم کے تمام اجزاء اپنا کام صحیح طریقے سے کر رہے ہوں ۔ فضلت اور زہریلے مادے جسم سے پوری طرح خارج ہو رہے ہیں۔ جسمانی اور ذہنی آرام وسکون کا خیال رکھا جا رہا ہو تو پھر آپکو اپنی صحت سے ہرگز غم نہیں ہونا چاہیے ۔ غرض یہ کہ جسم کی تعبیر و صحت، خوبصورتی اور دلکشی ، قو ت اور حرارے قائم رکھنے میں غذا مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔
وزن کا بہترین طریقہ ڈائیٹنگ نہیں بلکہ غذا کم کرنے کے بجائے ایسی غذا استعمال کی جائے جو جسم کی ضرورت کو پوری تو کرتی ہولیکن وزن نہ بڑھاتی ہے ۔ بھوکا رہنے سے صحت کے دوسرے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر معدے کے السر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے ، غذا میں سبز پتوں والی سبزیاں ، سلاد ، گندم کی بھوسی اور موٹے اناج استعامل کیے جائیں دالیں چھلکوں کے ساتھ استعمال کی جائیں ۔ایسے پھل کھائے جائیں جو چھلکوں کیساتھ ہے میٹھا ترک کر دیا جائے ۔ خاص طور پر سفید شکر کھانے اور ٹھنڈی بوتلیں سے پرہیز کیا جائے ۔ تازہ تحقیق شوگر سے دانتوں کے گرنے کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔ چکنائی ہمارے ہاں اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا میدے کا استعمال ہے میدے سے بنی ہوئی چیزوں کا استعمال کم کریں ۔ غذا کم کی جائے بڑھائی نہ جائے ۔ چینی ڈاکٹروں کاکہنا ہے۔ کہ ہر کھانے سے پہلے ایک پانی کا گلاس پیا جائے اور کھانے کے بعد تقریباً پندرہ منٹ چہل قدمی کرکریں۔ اس کے بعد جڑی بوٹیوں سے بنی چائے پئیں۔ رات کو سونے سے پہلے چوڑی پٹی والی بیلٹ پہن لیں اور ایک گلاس پانی میں چار پانچ گرام سرکہ ڈال کر پیا جائے تو وزن کرم کرنے کیلئے کافی مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ بہترین ورزش یپدل چلنا ہے اگر ہم روزانہ چالیس منٹ پیدل چلیں تو مزید کسی علاج کی ضرورت نہیں۔ مٹاپا دور کرنے کا ایک علاج یوگا کی ورزشش بھی بتا ئی جاتی ہے ۔ یوگا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ذہنی سکون کیلئے یوگا مشقوں سے بہتر کوئی طریقہ علاج نہیں ۔ یوگا جسم اور جزبات پر کنٹرول کرنا بھی سکھاتا ہے۔ حالانکہ ذہنی سکون کیلئے نما زسے بہتر دنیا میں کو ئی دوسری چیز نہیں ہے جوانسان کو صحت مند بھی رکھتی ہے اور ذہنی سکون بھی دیتی ہے جسم کی ظاہری خوبصورتی تب تک ممکن نہیں ہے۔ جب تک باطن صاف نہ ہو۔ چنانچہ ضروری ہے۔کہ جسم میں آکسیجن کی مقدار مناسب ، اور خون کی گردش متوازن اور جگر کا فعل درست ہو۔ دبلا ہونے کیلئے جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ کھانا کم کھایا جائے وہاں اس چیز کی اہمیت زیادہ ہے کہ کھانے کی خواہش کو کم کیا جائے۔
مٹاپا سے نجات کیلئے خواتین وحضرات کا ایک خاص طبقہ سلمنگ سنٹر کا رخ کر رہا ہے ۔ ان سنٹر میں وزن کم کرنے کی مشینیں یا خاص ادویات کے ذریعے کوئی بھی اپنا وزن کم کر سکتا ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ ان چیزوں کو چھوڑتا ہے اس کا وزن دوبارہ بڑ ھ جا تا ہے تیزی سے وزن کم کرنے سے نہ صرف کمزوری پیدا ہو سکتی ہے۔ بلکہ دوسرے نقصانات بھی ہوسکتے ہیں ۔ جو عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتے ہیں ۔ ان سلمنگ سنٹرز میں جو ڈائیٹنگ پلان بتایا جاتا ہے اس سے نوجوان لڑکیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے کیو نکہ یہ عمر نشوو نما والی ہوتی ہے ڈائیٹنگ کے ذریعے نہ صرف نشوونما رک جاتی ہے بلکہ جسم کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے ان کو قطعاًڈائیٹنگ نہیں کرنی چاہیے۔ شادی کے بعد ان کو ماں بننا ہوتا ہے اور ماں بننے کے بعد نہ صرف انہیں اپنے بچوں کو دودھ پلانا ہوتا ہے بلکہ اس کی پرورش بھی کرتی ہیں۔ ان تمام کاموں میں توانائی کی ضرورت ہے۔ سلمنگ سنٹرز میں ایسی خواتین کی جلد میں کھنچاؤ کی ورزش کرائی جاتی ہے جن کی کھال وزن کم ہونے کی وجہ سے ڈھیلی ہو جاتی ہے یہ طریقہ درست نہیں ہے بعد میں جسم سے خوبصورتی غائب ہونے لگتی ہے۔