ماہ رمضان اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی بندوں کیلئے بیش بہا نعمت ہے۔ اس ماہ کا ایک ایک لمحہ انمول تحفہ ہے۔ اس کا آغاز رحمت ہے۔ وسط مغفرت اور آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کا ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک میں رب کریم خصوصی کرم فرمائیوں کا موسم بہار ہوتا ہے ۔ نفلوں کا ثواب فرضوں کے برابر ، فرائض کا ثواب 70 گناہ زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔
حضرت عادم علیہ السلام ہر ماہ 14,13 اور 15 کو روزے رکھتے تھے۔حضرت نوح علیہ السلام ہمیشہ روزہ دار رہتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اور دو دن اعتکاف بھی فرمایا کرتے ۔ ذوی الحجہ کی 9 تاریخ کو بھی روزہ رکھتے ۔ عید الفطر کے بعد 7 روزے بھی رکھا کرتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر رمضان کی تین راتوں میں صحیفے نازل ہوئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت ماہ رمضان میں جمعہ کی راتوں میں نازل ہوئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام پر انجیل 13 رمضان المبارک کو نازل ہوئی اور حضرت مصطفی ﷺ پر قرآن کریم 24 رمضان کو نازل ہوا۔ قرآن کریم ایک ہی مرتبہ نازل نہیں ہوا۔بلکہ اس کا نزول 23 برسوں پر محیط ہے۔ سب سے پہلے قرآن مجید کا نزول شب قدر ، ماہ رمضان میں سورۃ علق کی پہلی پانچ آیت سے ہوا۔ سورۃ القدرمیں اس رات کی قدرو منزلت بیان کی گئی ہے جس رات نزول قرآن کا آغاز ہوا۔
مسلمانوں پر روزے 10 شوال میں 2 ہجری کو فرض ہوئے۔ روزے ارکان اسلام میں دوسرارکن ہے اور بالغ مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے ۔ جب ماہ رمضان بالکل قریب آتا ہے تو آپ ﷺ رمضان المبارک فضیلتوں ، برکتوں اور رحمتوں اورنعمتوں پر مشتمل خطبے ارشاد فرماتے ہیں اور صحابہ کرام کو رمضان شر یف کی برکتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کیلئے تیار کرتے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ''رمضان المبارک کا یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے یہ ہمدردی غم خواری کا مہینہ ہے اور دوزخ کی آگ سے چھٹکارہ پانے کا ذریعہ ہے ۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایمان والوں کی نیکیوں کے بدلے ان کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔
روزہ ڈھال ہے جس کے باعث دنیامیں برائیوں سے محفوظ رہتاہے۔ جس شخص نے ایمانی کیفیت کے ساتھ اور اجر آخرت کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے ۔ اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا ۔ جو اس سے پہلے سرزد ہو چکے ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا سواۃ البقرہ میں ارشاد ہے:''اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے ہو تم پر روزے اس طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ '' حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں روزے کی حقیقت رکنا ہے اور رکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں۔ مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکنا ، آنکھ کو شہوانی نظر سے روکنا ، کان کا غیبت سننے سے ، زبان کو بے ہودہ اور فتنہ انگیز باتیں کرنے سے اور جسم کو حکم الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا روزہ ہے۔
جب بندہ ان تمام شرائط کی پیروی کرے گا تب وہ حقیقتاًروزہ دار ہوگا۔ '' روزے سے جہاں انسان کی باطنی طہارت اور روحانی صحت کا التزام کیا گیا ہے، وہاں اس کی جسمانی صحت اور نظام انہضام کی خرابیوں کا علاج بھی اس میں موجود ہے ۔ پھر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کثرت خوری اور بے وقت کھانا معدے کے امراض کا موجب ہے، اس سے جسم کی نشونما صحیح طریقے سے نہیں ہوتی بلکہ غیر متناسب غذا اور کھانے کے غیر متعین اوقات کی بدولت اکثر لوگ لب گور پہنچ جاتے ہیں۔ سال بھر کی اس بے قاعدگیوں کو روکنے اور صحت اور تندرستی کے اصول پر عمل پیرا ہونے کیلئے یہ لازم تھا کہ انسان کو تیس روز تک پابند کیا جاتا ۔ وہ معینہ وقت پر کھائیں پئیں اور مقررہ وقت کے بعد کھانے پینے سے ہاتھ کھینچ لیں ۔
روزہ سے عبادت کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی صحت بھی حاصل کرتا ہے اور روح کی بالیدگیوں کے ساتھ ساتھ اس کی جسمانی صحت بتدریج کمال حاصل کرتی جاتی ہے۔ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے'' روزہ رکھو صحت یاب ہو جاؤ گے' روزہ بدن کی زکوٰۃہے۔'' یعنی جس طرح زکوٰۃ دینے سے مال پاک ہوجا تا ہے 'اسی طرح روزہ رکھنے سے جسم بھی بیماریوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ جس طرح اسلام کی تمام عبادتیں تمام دیگر مذاہب سے بہتر ہیں اسی طرح روزہ بھی دنیا کے تمام اصلاحی ذرائع بھی بہتر ہے اور تمام فوائد کا جامع ہے' اس میں تزکیہ روح بھی تزکیہ نفس بھی ہے۔ اس کے ذریعے سال بھر تک گناہوں سے بچنے کی مشق بھی ہے۔ بھوک وپیاس کی شدت واثر کا اپنی ذات پر امتحان بھی ہے اور اس میں دو سرے جنس کی تکلیف کا احساس بھی ہے اور اپنے آپ کو تکلیف اور پریشانی کے وقت ثابت قدم رکھنے کی مشق ہے اور آنے والے وقت کی شاندار کامیابی کیلئے جدوجہد بھی ہے جو شخص چند گھنٹوں کیلئے اپنی خواہشات کو قابو نہیں رکھ سکتا وہ زندگی میں کیا کارنمایاں کر سکتا ہے اور کس طرح زندگی کی مشکلات سے عہدہ بڑاہو سکتا ہے۔ اس مہینہ کو قمری حساب سے شروع کیا ہے تاکہ ہر موسم میں امتحان ہو تا رہے۔
تلا ش حق کی جستجو کانام ہے۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا نام ہے۔ اعتکاف چندروز کیلئے دنیا کی الجھنوں سے بے نیاز ہو کر اپنے خالق و مالک سے تعلق بندگی کی تجویز کرنے یا د الٰہی میں آنسو بہانے اور اپنے آپ سے مغفرت کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کا نام ہے۔ اسلام میں تمام عبادات کا مقصد اس خدائے لاشریک کی بندگی ہے جس نے اس کائنات کے رنگ و بو کو پیدا کیا۔رمضان المبارک کے آخری عشر میں ہزاروں کی تعداد میں لو گ اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔ رمضان کاآخری عشرہ دوزخ کی آگ سے نجات کا عشرہ ہے۔ لیلتہ القدر بھی اس عشر ے میں آتی ہے۔
قرآن کریم کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ 27 ویں رمضان المبارک کا عظیم الشان روحانی اجتماع بھی اس عشرے میں ہوتا ہے ۔ محافل نعت کا انعقاد ہوتا ہے۔ لوگ ساری رات جاگتے ہیں۔ شب کے پچھلے پہر یاد الٰہی کے چراغ روشن کرتے ہیں ۔ تہجد کیلئے مصلوں پر کھڑے ہوتے ہیں تو فرشتے بھی ان پر رحمت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ اعتکاف میں گناہوں سے توبہ ، استغفار کی کثرت ، دنیا سے خلوت ، خلوص میں اضافہ ، راتوں کو آہ وزاری کا موقع خوابوں اور عالم واقعہ پر بزرگوں سے ملاقاتیں کا اتفاق، مراقبہ کی پختگی، سیر آفاقی ، حیرت اور محویت کی سعادتیں تجلیات الٰہی کا ورد لیلتہ القدر کو پانے کے موقع، سفر درد وطن ، خلوت ، انجمن کی سعادتیں لوٹنے کیلئے حالات نہایت ساز گا رہوتے ہیں اعتکاف روحانی کیفیات کی بلندی ، ذکر وفکر کی تقویت اور خیالات کی یکسوئی اور فتا کی کیفیات کی مشق کر نے کیلئے بلند درجہ عبادت ہے۔
قدر کے معنی عظمت وشرف کے ہیں۔ وہ رات اس مبارکہ مہینہ کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں کسی ایک رات میں ہوتی ہے۔ یعنی(27,25,23,21 اور 29) کسی سال کسی طاق رات میں اور کسی سال دوسری طاق رات میں نہیں ہوتی مگر ہوتی انہیں پانچ راتوں میں سے ایک رات میں، اس لئے مختلف راتوں میں اس کا ہونا بیان کیا گیا ہے۔ لیلتہ القدر کو متعین نہ فرمانے میں بھی کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں تاکہ مسلمان اسی رات کی تلاش میں زیادہ نہیں تو کم ازکم پانچ طاق راتیں اللہ کے ذکر اور عبادت میں گزاریں۔ اگر ایک رات متعین کر دی جاتی تو لوگ اسی رات کو ہی جاگتے اور عبادت کرتے نیز اگر اس رات کو مقرر کر دیا جاتا تو اسے عبادت گزارنے والے تو اجر عظیم کے متعلق قرار پاتے لیکن اسے گناہوں میں صرف کرنے والے بھی سنگین سزا میں مبتلا کئے جاتے کیونکہ انہیں شب قدر کو پہچانتے ہوئے اسے خدائی نافرمانی میں ضائع کیا اس لئے رحمت کا تقاضہ یہی ہے کہ اسے چھپا کر رکھا جائے۔