سمگلنگ جدید دور کی برائیوں میں شمار ہوتی ہے۔ غیر قانونی طور پر مختلف اشیاء کو اندرون ملک لانے اور بیرون ملک لے جانے کے عمل کو سمگلنگ کا نام دیا گیاہے۔ کسٹم ڈیوٹی ادا کئے بغیر اشیاء کی غیر قانونی نقل و حرکت کرنے والوں کو سمگلر کہا جاتا ہے۔ کچھ چیزیں ایک ملک میں دوسرے ملک کی نسبت سستی ہوتی ہیں ایسی چیزوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے پر حکومتوں نے پابندیاں عائد کی ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں قانونی دائرے سے امپورٹ تو ہوسکتی ہیں مگر بغیر قانونی تقاضے پوری کئے نہیں لی جاسکتیں۔ مگر سمگلر یہ خطرہ مول لیتے ہوئے اپنا کاروبار جاری رکھتے ہیں۔ وہ ایک ملک سے سستی اشیاء خرید کر دوسرے ملک میں مہنگی فروخت کردیتے ہیں اور بھاری منافع کماتے ہیں۔
یہ قیمتی معدنیات میں سے ایک ہے۔ ہیرے انگولا، آسٹریلیا، آئیوری کوسٹ، بوٹسوانا، تنزانیہ، جنوبی افریقہ، زائر، سوازی لینڈ، سرالیون اور گھانا میں پائے جاتے ہیں۔ ان ممالک سے ہیرے قانونی اور غیر قانونی طور پر پوری دنیا میں پہنچتے ہیں۔ ہیرے جواہرات کا کاروبار کرنے والے پاکستانی اس کی سمگلنگ سے کاروبار چلا رہے ہیں کیونکہ قانونی طور پر ہیرا درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ویسے ہیرے کی شناخت تو جوہری ہی کرسکتا ہے کسٹم حکام کے بس کا یہ کام نہیں۔
دنیا میں سب سے زیادہ سونا ازبکستان سے برآمد ہوتا ہے۔ کرغزستان میں اس کے کافی ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سونا، آرمینیا، اریٹیریا، امریکہ، انڈونیشیا، انگولا، ایتھوپیا، برازیل، برکینیا، فاسکو، تنزانیہ، پاپوائے، نیو گنی، پیرو، جنوبی افریقہ، ڈومیکن، جمہوریہ روانڈا، زائر، زمبابوے، زمبیا، سعودی عرب، سوازی لینڈ، سولومون جزائر، سرنیام، فجی، سیرالیون، فلپائن، قازقستان، کوریا شمالی، کینیڈا، کینیا، گھانا، گنی استوائی، میکسیکو، اور نیوکیلی ڈونیا میں بھی ملتا ہے۔ سونے کے نرخ بعض ممالک میں کم ہیں بعض میں زیادہ ۔ سمگلر اس دھات کی وسیع پیمانے پر سمگلنگ کرتے ہیں۔
اسی طرح چاندی، چرس، افیون، ہیروئن، قیمتی گھڑیاں، الیکٹرونک کا سامان، قیمتی کپڑا، آرائش و زیبائش کا سامان سمگل ہوتا ہے۔ حکومتوں کی سخت نگرانی کے باجود یہ کاروبار ہر ملک میں چل رہاہے۔ اندرون ملک میں بھی سمگلنگ ہوتی ہے۔ ایران کے راستے سے چمن اور کوئٹہ میں غیر ملکی سامان آتا ہے۔ پشاور میں روس اور چین کے بارڈرز سے غیر قانونی سامان پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا اندرون ملک سمگلنگ کا کاروبار ہے وہ کوئٹہ اور پشاور سے غیر ملکی سامان لاتے ہیں اور شہروں میں فروخت کردیتے ہیں۔
سمگلنگ سے راتوں رات امیر بننے کی حسرت۔ یہ مقابلے کا دور ہے یہ مقابلہ دولت سے کیا جاتا ہے۔ ہر فرد ایک دوسرے سے زیادہ امیر بننے کا خواہشمند ہے۔ قانونی طریقہ کار سے کاروبار کرنے پر کم منافع ملتا ہے۔ سمگلنگ ایک خطرناک کاروبار ہے مگر یہ سودا نقد ہوتا ہے اس میں کسی قسم کا ادھار یا دیر نہیں کی جاتی۔ ایک ملک سے دوسرے ملک ایک چیز کے نرخوں میں بہت فرق ہوتا ہے یہی منافع پُرکشش ہوتا ہے اور بھاری رقم فوری طور پر مل جاتی ہے۔ سونا، چاندی، افیون اور ہیروئن کی قیمتوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں خصوصی طور پر ایشیا سے یورپ اور امریکی ممالک میں ان کا معاوضہ زیادہ ملتا ہے۔ سمگلروں کا منظم گروپ ہوتا ہے جو جدید مواصلاتی نظام سے لیس ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی مارکیٹوں کے ریٹ کا ہر وقت علم رکھتے ہیں۔ سمگلروں کے پاس کبھی نہ ختم ہونے والے فنڈز موجود رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ذرائع آمدورفت میں جدید کاریں، تیز رفتار جیپیں، آبدوز، مشینی کشتیاں اور جدید اسلحہ ان کے پاس موجود رہتا ہے۔ ان سمگلروں کا بعض حکومتی اعلیٰ عہدیداروں سے رابطہ ہوتا ہے جو انہیں خطرے سے آگاہ کردیتا ہے اور یہ چوکنے رہتے ہیں۔ بعض لوگوں کی رائے میں سمگلروں کو چیک کرنے کیلئے مکمل انتظامات نہیں ہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں ۔ سیکیورٹی اور متعلقہ عملہ اپنے خفیہ ذرائع سے ان کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھتا ہے مگر رابطہ ہونے کی بناپر ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔بعض خطرناک حالات کی بناء پر اپنی ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیتے ہیں اور آزاد زندگی گزارتے ہیں اور عمر بھر آرام سے اس کمائی کو کھاتے رہتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر سمگلروں کا گروپ پھیل جاتا ہے اور ناجائز نقل و حرکت پر پابندی اثراندازنہیں ہوتی۔
سمگلر اپنے ملک کے خطرناک دشمن ہوتے ہیں۔ وہ قومی ذرائع کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ملکی دولت اور قومی معیشت پر برا اثر ڈالتے ہیں ملک کی دولت دوسرے ملک میں منتقل ہوجاتی ہے۔ سمگلنگ سے سونے کے ذخائر کم ہوجاتے ہیں ۔ یہ کاروبار نجی نوعیت کا ہے اس سے فائدہ چند افراد کو ملتا ہے مگر ملک کو نقصان کو ہوتا ہے۔ سمگلنگ کئی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ سمگلر کسٹم اور پولیس کے آفیسروں کو بھاری رشوت دیتے ہیں۔ کچھ افراد سمگلر کی پیشکش کو قبول کرکے لالچ میں آجاتے ہیں اور سمگلروں کے غیر قانونی کاروبار سے چشم پوشی کرلیتے ہیں۔ ان اشیاء کے دوسرے ممالک میں منتقل ہونے سے قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سمگلر بد ترین فرد ہوتا ہے کیونکہ اس کام کیلئے اپنے ملک کو بھی نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کرتا۔ ہیرے ، سونا، چاندی اور قیمتی اشیاء کے علاوہ سمگلر کئی غیر قانونی اشیاء بھی سمگل کرتے ہیں۔ کلاشنکوف، کیمیکل ہتھیار، الیکٹرونکس، زہریلے ہتھیار، قیمتی پتھرپلاٹینم اور یورینیم جیسی معدنیات بھی سمگل کرکے بھاری معاوضہ کماتے ہیں۔ آسانی سے بروقت نقددولت حاصل کرنے کی کشش نے اس کام میں وسعت پیدا کردی ہے۔ بعض تاجروں نے اپنے عام کاروبار چھوڑ کر سمگلنگ کا کا شروع کردیا ہے۔
ایشیاء اور افریقی ممالک کے بعض لوگ اپنی مالی حالت سدھارنے کی غرض سے مغربی ممالک میں ملازمتوں کیلئے غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔ ان لوگوں میں کچھ سیاسی پناہ حاصل کرنے کی غرض سے داخل ہوتے ہیں۔اکثر لوگ کسی نہ کسی طرح ان ترقی یافتہ ممالک میں داخل ہوکر ملازم ہوجاتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال 10,000 مختلف ممالک کے تارکین وطن بارڈر سے واپس کردئیے جاتے ہیں۔ اسی تعداد میں لوگ برطانیہ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ان کو کون ملازم رکھتا ہے؟ کون ان کے اخراجات اٹھاتا ہے؟ کون ان کو چھپا کر رکھتا ہے؟ کون ان کی تجارت کرتا ہے؟ دنیا کے تمام غریب ممالک سے لوگوں کو عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے سہانے خواب دکھا کر امیر ممالک میں لایا جاتا ہے۔ ان ممالک سے لانے والے لوگ کون ہیں؟ یہ لوگ انٹرنیشنل سمگلر ہیں۔ پاکستان سے قانونی طور پر ملازمت کیلئے جانے والی مین پاور حکومت پاکستان کے متعلقہ محکمے سے جاتی ہے جن سے پہلے معاہدہ ہوتاہے ضروری کاغذات ہوتے ہیں اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی۔ دوسرے نمبر پر بیرون ممالک میں بھیجنے والے ریکروٹینگ ایجنٹس ہیں جو باقاعدہ لائسنس یافتہ ہیں اور حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں انہوں نے اپنے دفاتر کے باہر اپنے ریکروٹینگ لائسنس کا نمبر بھی بڑے حروف میں لکھا ہوتا ہے بعض حضرات نے اپنے دفاتر کے باہر یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی ایجنٹ نہیں ہے۔ کسی سے لین دین نہ کریں۔ تیسرے نمبر پر نجی طور پرلوگ غیر ممالک بھیجنے کی یقین دہانی کراتے ہیں انہوں نے ہر علاقے میں اپنے ایجنٹس چھوڑے ہوتے ہیں جو اپنی فنی صلاحیتوں سے لوگوں کو اعتماد میں لیتے ہیں۔ بعض ایسے لوگ علاقہ کی مسجد میں توسیع کرانے کیلئے بھاری رقم خرچ کرتے ہیں۔ اکثر حاجی صاحب یا میاں صاحب کہلواتے ہیں اسی دوران ان کے ایجنٹس کا م مصروف ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگ پیسہ لے کر غائب ہوجاتے ہیں بعض پیسہ نہیں لیتے اور معمول پاسپورٹ کا خرچ وغیرہ ہی کراتے ہیں۔ یہ لوگ ہر عمر کے لوگوں کو امیر ممالک میں ملازمتیں دلوانے کی مفت پیشکش کرتے ہیں۔ لوگ ان کے اعتما د میں آجاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو یونان کے بحری جہاز میں ملازمت دلوانے کیلئے آفر کرتے ہیں۔ جب لوگ پاکستان سے استنبول پہنچتے ہیں تو کئی ممالک کے بحری جہاز کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان یا کسی غریب ملک سے آئے ہوئے لوگوں کا سودا کرنے کا یہ پہلا سٹیشن ہے۔ دوسرا بڑا سٹیشن یونان ہے جہاں بحری جہازوں پر آئے ہوئے انٹرنیشنل سمگلر یا ان کے بڑے ایجنٹس آئے ہوتے ہیں۔ ان ممالک سے لائے ہوئے مجبور انسانوں کو ملازمت کی آڑ میں شریفانہ طریقے سے فروخت کردیا جاتاہے۔
ان کو لانے والے سمگلروں سے ملتے ہیں اور ہر آدمی کو قدیم وقتوں کے غلاموں کی طرح "فروخت "کردیا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اس وقت ہوٹلوں میں ٹھہرادیا جاتا ہے ان سے پاسپورٹ لے لئے جاتے ہیں۔ ایجنٹ ان کے پاسپورٹ دکھا کر اپنا" مال "فروخت کرتے ہیں۔منشیات کے ڈیلر اور سمگلر ان آدمیوں کو ملازمت دینے کا کہہ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ چند دن آرام سے رکھنے کے بعد انہیں ہیروئن فروخٹ کرنے اور سمگلنگ کی تربیت دیتے ہیں کچھ مجبورلوگ یہ کام کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ان سے بغاوت کرنے والوں کو اکثر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ ایک تو وہ بغیر پاسپورٹ کے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاسپورٹ پہلے ہی دن لے لئے جاتے ہیں۔ ان تمام کوائف کو لندن کے اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا ہے کہ اس جدید دور میں انسانوں کی سمگلنگ بند کی جائے۔ روزنامہ لندن آبزرور نے تیسری دنیا کے حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ اپنے ممالک سے غیر قانونی طورمین پاور یورپ بھیجنے کی زحمت نہ فرمائیں۔ غیر انسانی سلوک سے ہمیں بھی دکھ ہوتا ہے ۔ یور پ میں اب تارکین وطن سے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔
ایشین ٹائیگرز اور چین نے بیرونی سرمایہ کاری اور مالیاتی اداروں کی مدد سے شاندار ترقی کی ہے۔ وہاں کی لیڈر شپ نے دل و جان سے ہوم ورک کر رکھا ہے ان ملکوں میں نالائق اور بے ایمان لوگ کابینہ میں زیادہ دیر نہیں چل سکتے اس لئے ان ملکوں نے جلد ہی ترقی کرلی، سمگلنگ پر قابو پاکر قومی خسارے کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ سمگلنگ کو روکنے کیلئے سمگلروں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ بارڈر پر کسٹم کا عملہ اور پولیس کے اہلکار ایماندار اور فرض شناس لگائے جائیں۔ بارڈر کے قریب رہنے والے لوگوں کو حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔ سمگلنگ کا مال ہمیں کم قیمت پر بھی نہیں خریدنا چاہیے۔ سمگلنگ کرنے والے افراد کی عوام کو نشاندہی کرنی چاہیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عوام غیر ملکی اشیاء کا استعمال بند کردیں۔ اپنے ملک میں تیار ہونے والی چیزیں استعمال کرکے اپنی صنعت کو فروغ دیں۔ زندگی میں میانہ روی اختیار کریں۔ انسان کی عزت کپڑوں پر نہیں بلکہ اس کے اعلیٰ کردار میں چھپی ہوتی ہے۔