Taj Mahal Essay in Urdu تاج محل - مغل فن تعمیر کا اعلیٰ شاہکار

Taj Mahal

محبت کی یاد گار :-

تاج محل، بھارت کے شہر آگرہ سے باہر دریائے جمنا کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔ اسے مغل شہنشاہ شاہجہاں نے اپنی ملکہ ارجند بانو جسے ممتاز محل بھی کہا جاتا ہے۔ کی یاد میں تعمیر کر وایا 1612 میں شاہجہان نے ممتاز محل سے شادی کی 19 سال خوش و خرم زندگی گزارنے کے بعد 1631 میں برہان پور کے قصبے میں ممتاز محل انتقال کر گئی ۔ انتقال سے قبل ممتاز محل نے شاہجہان سے یہ آخری الفاظ کہے کہ میرے مرنے کے بعد تم دوسری شادی نہ کرنا اور میرے لیے تم ایک ایسی یاد گار تعمیر کروانا جسے دنیا حیرت سے دیکھے شاہجہان نے یہ وعدہ نبھایا اور ایسی خوبصورت عمارت تعمیر کروائی جس کا دنیا کے سات عجوبات میں شمار ہوا۔ امریکی صدر کینیڈی کی بیوی جیکی کینیڈی جب بھارت کے سرکاری دورے پر انڈیا آئی تو تاج محل کو دیکھ کر اخباری نمائندوں سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمارت اس لیے دیکھنے آئی ہوں کہ کیا کوئی مرد عورت سے و قعی اتنا پیا ر کر سکتا ہے۔

تاج محل خطرے میں:-

دنیا میں محبت کی اپنی نوعیت کی واحد یاد گار ماحولیاتی آلودگی کے سبب اب خطرے میں ہے ۔ تاج محل کا حسن خرا ب ہو رہا ہے ۔ راجستھان کی طرف سے آنے والے تیز گرم رتیلی ہواؤں نے تاج محل کے سفید سنگ مرر کو پیلا کرنا شروع کر دیا ہے ۔ آئل ریفائنری کا دھواں اور فیکٹریوں سے خارج ہونے والے کیمیکل اور گندگی نے تاج محل کی خوبصورتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کے اضافے سے اس کا رنگ سفیدی سے پیلا ہٹ میں تبدیل ہو رہا ہے ۔ شاہجہاں نے تاج محل کیلئے جمنا کا کنارہ اس لیے چنا تھا تاکہ اس کے پانی سے عمارت ٹھنڈی رہے لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ دریائے جمنا نے اپنا راستہ بدل دیا ہے ادھر راجستھان کی گرم ہواؤں نے ادھر کا رُخ کرلیا ہے۔مزید یہ کہ بھارت میں ہند وؤں کی انتہا پسند جماعتوں نے تہہ کر لیا ہے کہ وہ ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی یادگاروں کو کسی نہ کسی بہانے ختم کر کے ہی دم لیں گے ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بابری مسجد کے بعد اب تاج محل کی باری ہے ۔ متعضب اور تنگ نظر ہند وؤ ں نہ یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہاں سے 400 ق چند ر گپت موریہ نے مندر بنوایاتھا۔ یہ وہی چال ہے جو ہندوؤں نے بابری مسجد کیلئے چلی تھی ۔ لیکن تاریخی حوالہ سے یہ دعویٰ خلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ چند گپت موریہ کا زمانہ 351 ق م ہے۔ اس کا دارالخلافہ بھی پٹنہ تھا۔

تجاوزات ہٹانے کا حکم:-

1984ء میں بھارت کے ایک ہندو ایڈووکیٹ ایم سی مہتہ نے تاج محل کے حسن کو بچانے کیلئے عدالت میں ر ٹ دا ئر کی جس کا فیصلہ 30 دسمبر 1996ء کو سپریم کورٹ نے یہ دیا تھا ۔ کہ تاج محل کے اردگرد صنعتی اداروں کو دوسرے مقامات پر منتقل کر دیا جائے جن کی موجودگی سے تاج محل کی خوبصورتی متاثر ہو رہی ہے ۔ سپریم کورٹ نے تاج کے اردگرد 500 میٹر کے دائرے میں شجر لگانے کی ہدایت بھی کی ۔ سپریم کورٹ کے اس حکم سے تقریباًایک ہزار کارخانوں کو یہاں سے ہٹانا پڑا گا۔ محکمہ جنگلات نے یہاں شیشم ، نیم ، جامن اور دیگر درخت لگانے کیلئے زمین حاصل کر لی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی لکھا ہے ۔ کہ تاج محل میں روزانہ 15 ہزار سیاحوں سے لاکھوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے ۔ اس آمدنی سے تاج محل کے اردگرد ضروری آسائشیں میسر کی جائیں ۔ بعض ماہرین کا کہانا ہے کہ تاج محل کو صنعتی علاقوں کی آلودگی سے زیادہ ٹریفک اور ڈیزل جنریڑز سے خطرہ ہے۔

عمارت:-

شاہجہاں نے تاج محل کی تعمیر کیلئے ہندوستان ، ایران اور وسطی ایشیاء کے ماہرین عمارت کو کو بلایا اور اس کا ڈیزائن پہلے خود پسند کیا پھر 1632 ء میں اس کی تعمیر شروع ہوئی اور 22 سال کے عرصہ میں تاج محل مکمل ہوا ۔ 22 ہزار مزدوروں نے اسے مکمل کرنے میں دن رات محنت کی۔ عمارت مستطیل شکل میں ہے ۔ اس کی لمبائی 1902 فٹ (580 میٹر) ، چوڑائی 1002 فٹ (305 میٹر) ہے۔ اس مستطیل جگہ کے مرکز میں ایک باغ ہے جو مربع شکل میں بنا ہوا ہے ۔ اس میں داخل ہونے کیلئے چار دروازے ہیں ۔ جن میں ایک بڑا اور 3 چھوٹے ہیں ۔ یہ چاروں سرخ پتھر سے بنائے گئے ہیں۔ اندر داخل ہونے کیلئے بڑا دروازہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پر خوبصورت پھولوں کے نمونے بنائے گئے ہیں اور قرآن کریم کی آیات بھی کنندہ ہیں۔ دروازنے کے نیچے سیڑھیوں کے کے ذریعے باغ میں داخل ہوتے ہیں۔ جو پھولوں کی خوشبو ؤں سے بھرا ہو ا ہے ۔ حوض میں فوارے لگے ہوئے ہیں۔ حوض کے اوپر ایک چبوترہ ہے اس کے اوپر ایک سنگ مرر کا چبوترہ ہے۔ اس چبوترے کی دیوار میں ایک طرف سفید پتھر اور ایک طرف زینہ ہے ۔ اس چبوترے کے وسط میں روزے کی عمارت ہے ۔ مقبرہ میں جابجاہ پورا قرآ ن لکھا ہوا ہے۔ مقبرہ 21 فٹ ( 7میٹر ) بلند ہے تاریخی شواہد کے مطابق اصل قبریں سنگ مرمر کے تہہ خانے میں ہیں ۔ تاج محل مکمل کرنے پر شاہجہاں نے 50 ملین روپے خرچ کئے۔

تاج محل کو بچایا جائے:-

دوسری جنگ عظیم میں پیرس کی خوبصورتی اور مصوروں کے نایاب نوادرات کو بچانے کیلئے فرانس اور یورپ کے تمام ممالک نے ہٹلر سے اسے بچانے کی اپیل کی تھی۔ فرانس نے ہٹلر کے آگے پیرس کو بچانے کی خاطر ہتھیار ڈال دیے تھے ۔ ہٹلر جیسے سنگ دل اور جنگجوانسان نے بھی پیرس جیسے خوبصورت شہر پر حملہ آوری روک دی تھی۔ جرمن فوجیں خاموشی سے پیرس شہر سے گز ر گئیں اور پیرس کو تباہی سے بچا لیا ۔ ہندوستان کی اتنی بڑی حکومت ایک عمارت پر رحم نہیں کر سکتی ۔ تاج محل کسی انگریز حکمران کی یاد گار نہیں ہے اپنے ہی ملک کے بادشاہ کی تعمیر کردہ یاد گار ہے۔ ہندو کو مت تعصب کی بناء پر اسے ختم کرنا چاہتی ہے یہ ایک مسلمان کی تعمیر کردہ عمارت ہے ۔ تاج محل کی بین الاقوامی شہرت کا ثبوت انٹر نیشنل ریفرنس کتابوں میں ملتا ہے ۔ انگریزی ، فرانسیسی ، جرمن اور چینی زبانوں میں شائع ہونے والے انسا ئیکلوپیڈیا میں تاج محل کا ذکر موجود ہے ۔ جس سے نئی نسل بھی واقف ہو رہی ہے ۔ تا ج محل ایک انٹرنیشنل عمارت ہے ۔ جس کے تصویر دنیا کے تقریباً ہر گھر میں موجود ہے اور لوگ اس عمارت کے حسن سے متاثر ہیں ۔ موجودہ دور میں یہ سارا کریڈٹ بھارتی حکومت کو ہی ملتا ہے۔

انڈین سپریم کورٹ کے فیصلہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ کاش اس پر عمل ہو جائے اور یہ خوبصورت عمارت بچ جائے ۔ اور دنیا کا یہ ساتواں عجوبہ تعصب کی نظر سے محفوظ ہو جائے۔