Dehshat Gardi Essay دہشت گردی ایک بین الاقوامی مسئلہ

Terrorism in Urdu

دہشت گردی: ایک بین الاقوامی مسئلہ:-

دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد اقوام متحدہ کا قیام ایک بڑا مقصد کرہ ارض سے جنگ کے خطرات کا خاتمہ کرنا تھا۔ جس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ایک ایسا بین الاقوامی ماحول پیدا ہوگیا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جنگی پابندیوں کی وجہ سے ریاستیں براہ راست جنگ سے گریز کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستوں نے ایسی جنگی دفاعی صلاحیتیں حاصل کرلی ہیں کہ وہ براہ راست ایک دوسرے کے خلاف مسلح افواج کے ذریعے طاقت کے استعمال کو برا سمجھتی ہیں۔ لیکن اس کا ایک نتیجہ دہشت گردی کی صورت بھی نکلا ہے۔ پچھلے پچاس سالوں سے دہشت گردی کا خطرہ پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔ اگرچہ دہشت گردی کی اصطلاح نئی نہیں ہے۔ فاتح اور انقلاب پسند اسے کئی سالوں سے عوام اور حکومت دونوں کو دبانے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد دہشت گردی کیلئے نئے طریقے استعمال کئے جارہے ہیں اور یہ ایک نئے روپ میں ظاہر ہورہی ہے۔

مختلف حکومتیں، تاریخ دان، سوشیالوجسٹ اور نفسیات دان اپنے اپنے انداز میں اور اپنے اپنے نظریات کے مطابق اس کی تعریف کرتے ہیں اور یقیناًان کی تعریفوں میں کوئی ہم آہنگی نہیں ہے کہ کونسا عمل حقیقت میں دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے جو ایک مہذب سوسائٹی کیلئے ناقابلِ قبول ہے۔

دہشت گرد عام طور پر سیاسی گروپوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے چھوٹے چھوٹے سازشی گروپوں کی شکل میں تشدد کے نئے نئے طریقے اپناتے ہیں۔ دہشت گردی کا مقصد مادی مفاد سے زیادہ نفسیاتی اور سیاسی ہوتا ہے۔ جیسا کہ Hardd Lasswell نے لکھا ہے کہ

" دہشت گردوں کا سیاسی عمل میں حصہ لینے کا مقصد سخت بے چینی پیدا کرکے سیاسی نتائج کا حصول ہوتا ہے۔"

دہشت گردی کی چند خصوصیات یہ ہیں۔:-

  1. دہشت گردی کا عمل پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ہوتا ہے۔
  2. اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہوتا ہے۔
  3. یہ عموماً بلا سوچے سمجھے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔
  4. ان کا مقصد معاشرے میں بے چینی پیدا کرکے مفادات کا حصول ہوتا ہے۔

امریکی کانگریس بھی دہشت گردی کے مندرجہ بالا عناصر کو تسلیم کرتی ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی میں ایک سے زیادہ ممالک شامل ہوتے ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن مقاصد کے لحاظ سے ایسے واقعات کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

  1. سامراجی نظام سے آزادی کے حصول کیلئے کوشش۔
  2. کسی ریاست کے اندر موجودہ نظام میں انقلابی تبدیلی کیلئے کوشش۔
  3. دہشت گردی کی مجرمانہ سرگرمیاں۔

پہلی دو اقسام جمہوریت کا حصہ ہیں اور یہ عوام کے ایک بہت بڑے گروپ کے سیاسی اور معاشی حقوق سے متعلق ہیں۔ لیکن کیا جدو جہد انصاف پر مبنی ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو پھر ایسی کوشش دہشت گردی کا حصہ ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد سے الجزائر سے لے کر فلسطین تک سامراجی نظام کے خلادف جدوجہد کو غیر جانبدارانہ محققین نے جائز قرار دیا ہے اگرچہ اس کے مخالفین نے اس جائز جدوجہد کو دہشت گردی کا نام دینے کی کوشش کی۔ لیکن یہ کوشش جاری رہی کیونکہ ایک آدمی کیلئے جو دہشت گردی ہے وہ دوسرے کیلئے حقوق و آزادی کی جدوجہد کی حیثیت رکھتی ہے۔

فلسطین کی جدوجہد آزادی بعض لوگوں کے نزدیک متنازعہ حیثیت رکھتی ہے لیکن اسرائیل میں بھی ایسے دہشت گرد گروپ ہیں جنہوں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کے سلسلے میں مسلح جدوجہد کی اور امریکہ نے اس سلسلے میں مکمل حمایت کی۔ آغاز میں فلسطین کی جدوجہد آزادی خاص قسم کی گوریلا جنگ کی خصوصیت رکھتی تھی جن میں جہاز کا اغوا، اسرائیلی آبادیوں پر حملے اور 1968 میں میونخ میں اولمپک کھیلوں پر حملے وغیر ہ کو دہشت گردی کہا جاسکتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں آزادی کی تحریکوں خصوصاً جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی اور نسلی امتیاز کی مذمت کی گئی۔

کشمیر پر انڈیا نے زبردستی قبضہ کیا اور بعد میں یواین او کی قراردادوں کو یکسر مسترد کردیا جس کو اس نے ابتدائی طور پر تسلیم کیا تھا۔ کشمیری لوگ اپنے حق خودارادیت کیلئے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانیاں دے رہے ہیں لیکن بھارتی حکومت انھیں دہشت گرد اور علیحدہ پسندوں کے نام سے موسوم کررہی ہے۔

فلسطین اور کشمیر میں اسرائیل اور انڈیا نے جو پالیسیاں اختیار کی ہوئی ہیں وہ سوال پیدا کرتی ہیں کہ ریاستی دہشت گردی کسے کہتے ہیں؟ اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کرنے کیلئے اکثر مسلح طاقت کا استعمال کیا ہے۔اسرائیل لڑاکا طیاروں اور ہیل کاپٹرگن شپ نے اکثر بلا امتیاز لبنان کے گاؤں اور فلسطینیوں کے مہاجر کیمپوں پر بمباری کی ہے۔ اس سے ہونے والا جانی و مالی نقصان اس نقصان سے کئی گنا زیادہ ہوتا جو کہ حریت پسندوں کے ذریعے اسرائیل کو پہنچتا ہے۔اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف بھارت کی ظالمانہ کاروائیاں کشمیری نوجوانوں کا قتل ان کے گھروں کو جلانے کے واقعات اور کشمیری عورتوں کی بے حرمتی اور مذہبی مقامات کی بے حرمتی کے واقعات کو بھی اسی قسم کی ریاستی دہشت گردی میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور حالیہ مثال چیچنیا کی بھی ہے۔

تقریباً ایک ملین افراد پر مشتمل چیچنیا کی چھوٹی سی اسلامی ریاست نے روسی حکمرانوں کے ہاتھوں بے پناہ مظالم برداشت کیے ہیں۔ انیسویں صدی میں فرار بادشاہوں کو چیچنیا میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں سٹالن نے نازیوں کے حملے کے بعد چیچن عوام کی وفاداری کو مشکوک سمجھتے ہوئے انھیں مکمل طور پر وسطی ایشیا میں جلاوطن ہونے پر مجبور کردیا۔ بعد میں 1957ء کے زمانے میں دوبارہ چیچنیا میںآکر آباد ہوئے لیکن انھوں نے روس کی بالادستی کو کبھی قبول نہ کیا اور جب 1991ء میں سویت یونین کے خاتمے پر آزادی کا اعلان کردیا۔ لیکن صدر بورس یلسن اور بعد میں ولادئمیر پیوٹن نے ان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں کا آغاز کیا۔ لیکن حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ان کے خود مختاری کے مطالبہ کو مان لیا جاتا تو وہاں امن قائم رہتا۔ کیوبا کے انقلاب سے متاثر ہوکر پیرو، کولمبیا، گوئٹے مالا اور میکسیکو میں جو تحریکیں جاری ہیں ان کا مقصد موجودہ نظام میں انقلابی تبدیلی لانا ہے۔

تیسری دہشت گردی کی قسم میں مجرمانہ سرگرمیاں شامل ہیں جس میں جہازوں کا اغوا، اغوا برائے تاوان، بم بلاسٹ، ڈاکہ زنی اور گھروں اور سڑکوں پر قتل جیسے واقعات شامل ہیں ۔ انارکی پھیلانا اور حکومت کے خلاف سرگرمیاں، ایسے گروپ جرمنی اور جاپان میں موجود ہیں۔ ایسے پروفیشنل دہشت گردوں میں ارجنٹائن کا بدنام زمانہ دہشت گرد کارلوس جو کہ 70 کی دہائی میں دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث رہا مغربی ممالک نے لیبیا کے صدر کرنل قذافی پر الزام لگایا کہ وہ کارلوس سمیت دوسرے دہشت گردوں کو پناہ گاہ مہیا کرتے ہیں۔

اگرچہ جنگ آزادی کی تحریکیں 1970 کے بعد ختم ہوگئیں ہیں لیکن دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ ہی ہوتا گیاہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ انٹرنیٹ اور ا نفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد دہشت گرد واقعات اور ان کی وجوہات فوراً عوام تک پہنچ جاتی ہیں۔ اگرچہ تشدد کے واقعات اپنی جگی متاثر کرتے ہیں لیکن ان کا فوری نتیجہ ذہنی انقلاب کی صورت میں نکلتا ہے۔ بعض دہشت گرد گروپ مخصوص نظریات کے حامل ہوتے ہیں جیسا کہ امریکہ میں دہشت گروپ جن میں دیک اوکلے ہوما میں 1995ء میں وفاقی بلڈنگ کے دھماکے میں ملوث تھا۔ اسی طرح جاپان میں شوکو اسہارا گروپ۔

شہری آبادیوں میں اضافہ بھی دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ کا باعث ہے۔ دہشت گرد بعض اوقات حکومتی تحویل میں اپنے ساتھیوں کی رہائی، اپنے ساتھیوں کے خلاف کی گئی کاروائیوں کا بدلہ لینے، عوام میں حکومت کے خلاف نفرت پیداکرنے یا مختلف فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کیلئے بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔ دہشت گرد گروپ دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں ایک حصہ ملک کی سیاست میں حصہ لیتا ہے جبکہ دوسرا دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہوتا ہے جیسا کہ فلسطین میں حماس گروپ، آئرش ریپبلکن آرمی اور سری لنکا میں تامل ٹائیگرز وغیرہ۔

دہشت گرد کاروائیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک ملکی سطح پر دوسری بین الاقوامی سطح پر۔ بعض ریاستیں بھی دوسری ریاستوں کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظام کو اپنے مخصوص مفادات کی خاطر تباہ کرنے کیلئے دوسری ریاستوں میں دہشت گردوں کی سرپرستی کرتی ہیں اس کی بڑی مثال بھارتی ایجنسی"را" اور اسرائیلی " موساد" قابل ذکر ہیں۔

پاکستان اور دہشت گردی:-

دہشت گردی کا مطلب لوگوں یا حکومت کے خلا ف طاقت کااستعمال ہے۔ یہ طاقت کا استعمال مجموعی، سڑکوں اور گھروں میں لوگوں کا قتل، اغوابرائے تاوان، ڈاکہ زنی اور پرائیویٹ یا پبلک جائیداد کو کسی طریقہ سے نقصان پہنچانا ہے۔ دوسرے ملکوں کی طرح ہمارے ملک میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں پچھلے تیس سالوں سے اضافہ ہوا۔ سماج دشمن عناصر کی سرگرمیوں کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پھیلی۔ معاشرتی انصاف کی کمی بے روزگاری اور نا انصافی جیسے عناصر بعض اوقات ہمارے جوانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ تخریب کار عناصر کے آلہ کار بن جائیں۔ سندھ اور کراچی میں ایسے تخریب کاروں کی کافی تعداد موجود ہے جو کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔

ہمارے ملک کا معاشرتی نظام بھی دہشت گردی میں اضافہ کا باعث ہے۔ امیر انتہائی امیر ہیں اور غریب انتہائی غریب ہیں۔ زمینداروں، صنعت کاروں، تاجروں اور سرمایہ داروں کے درمیان وسیع معاشرتی اختلافات ہیں ۔ جب غریبوں پر ظلم میں اضافہ ہوتا ہے یا وہ اپنے جائز حقوق سے محروم کردئیے جاتے ہیں تو وہ تخریب کاری جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

ناکافی تعلیمی مواقع، آبادی میں اضافہ، جمہوریت کی ناکامی وغیرہ بھی ایسے عناصر ہیں جو کہ دہشت گردی میں اضافے کا باعث ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیر اور افغانستان کی صورتحال نے بھی ایسی سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے۔ " را" جیسی بدنام زمانہ ایجنسیوں نے ایسے مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں اپنے تخریب کار عناصر بھیج کر ہمیشہ صورتحال سے فائدہ اٹھایا ہے۔ پچھلے دنوں گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 35 ہزار " را " کے ایجنٹ موجود ہیں۔

تخریب کاری کی ایک نئی لہر اس وقت پاکستان میں شروع ہوئی جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا۔ پاکستان بد قسمتی سے فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اسلحہ کی بھر مار نے اس صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔ فرقہ وارانہ تقسیم نے معاشرہ میں مختلف چھوٹے چھوٹے مذہبی گروہوں کو جنم دیا ہے۔ یہ مذہبی گروپ اپنی اپنی بالادستی اور اپنے نظریات کے فروغ کیلئے ہر قسم کی دہشت گردی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔انھوں نے اپنی دہشت گرد تنظمیں بنا رکھی ہیں۔ پاکستان جیسی مذہبی ریاستیں فرقہ وارانہ دہشت گردی کا اس لئے بھی شکار ہوتی ہیں کہ سیاستدان جس بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے اعتقادات کی وجہ سے کم مصلحت کی بناء پر زیادہ دوسرے فرقے کے خلاف واضح طور پر تشدد کی کاروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مذہبی تعصبات کی بنا پر ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے کے لوگوں اور رہنماؤں کے قتل بھی دریغ نہیں کرتے۔

دینی مدرسوں نے خاص طور پر مذہبی دہشت گردی اور فرقہ ورانہ سرگرمیوں میں اضافہ کیلئے مواقع فراہم کئے ہیں۔ لوگوں کی غربت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان کی جہالت کی وجہ سے دینی مدرسوں کے طلبا کی ایسی تربیت کی جاتی ہے کہ وہ صرف اپنے فرقے کے نظریات کو ہی درست سمجھتے ہیں۔ وہ صرف وہی تسلیم کرتے ہیں جو انھیں مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ دوسرے فرقے کے نظریات کو تسلیم کرنا یا ان کے بارے میں تحقیق کرنا ان کے نصاب میں ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ فرقہ ورانہ تقسیم غیر ملکی عناصر کو بھی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کرتی ہے کٹڑ مذہبی عناصر دانستگی یا نادانستگی غیر ملکی عناصر کے ہاتھوں آلہ کار بن کر کھیلتے رہتے ہیں۔

دہشت گردی کا خوف ہمارے شہروں، ہمارے گھروں حتیٰ کہ ہمارے ذہنوں میں بھی بسا ہوا ہے۔ پاکستان کا نیوکلیئر ریاست ہونا دوسرے ملک دشمن عناصر کیلئے ناقابل برداشت ہے اس لئے وہ تخریب کاری کے ذریعے اسے ہر لحاظ سے سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ دہشت گرد نہ صرف جمہوری بلکہ فوجی حکومتوں کے دور میں سرگرم رہے ہیں۔

معاشرتی انصاف:-

دولت کی منصفانہ تقسیم دہشت گردی کی لہر کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے بے روزگاری جو کہ دہشت گردی میں اضافہ کے ذریعہ کو ختم کرنا بھی ضروری ہے۔ را اور موساد جیسی ایجنسیاں بے روزگارنوجوانوں کو بڑی بڑی رقوم کے عوض ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ِ

سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کا نفاذ بھی ضروری ہے۔ گورنمنٹ کی نرم اور کمزور پالیسیاں اور منصوبہ کا فقدان۔ ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ آبادی پر قابو پانا ضرور ی ہے۔ عوام کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ دہشت گردوں کی بروقت حکومتی ایجنسیوں کو اطلاع دینا ان کے اپنے مفاد میں ہوگا۔

ذرائع ابلاغ دہشت گردی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں خاص طور پر اسلحہ کی بے جا نمائش جوکہ میڈیا کے ذریعے کی جاتی ہے کا خاتمہ ضروری ہے ایسی پالیسیاں اختیار کی جائیں جو اس رجحان کو ختم کرنے کا باعث بنیں۔ موجودہ حکومت کی معاشرہ کو اسلحہ سے پاک کرنے کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔

امریکہ اور بین الاقوامی دہشت گردی:-

جو سامراجی نظام کے خلاف تحریکوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے ترقی یافتہ ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا۔ سرد جنگ کے خاتمے سے امریکہ واحد سپر پاور کے طور پر دنیا میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے لگا ہے۔ چنانچہ امریکہ نے دہشت گردی کو دنیا سے ختم کرنے کا فرض بھی اپنے ذمہ لے لیا۔ تاکہ وہ اس ہتھیار کو اپنے دوستوں اور دشمنوں دونوں سے اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کرے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کا سب سے اہم ٹارگٹ بن چکاہے۔

ستر کی دہائی میں تقریبا 30% دہشت گردی کے واقعات امریکہ کے خلاف ہوئے اور اس کی بڑی وجہ ا س کی پالیسیاں تھیں۔ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک کی آزادی اور خود مختاری کے خلاف اقدامات کی وجہ سے دنیا بھر اور اسلامی ممالک میں امریکہ کی نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل اور بھارت کی بے جا حمایت نے پاکستان اور عرب ممالک کے عوام کے دلوں میں امریکہ کیلئے نفرت میں اضافہ کیا ہے۔

ایسے ممالک جو کہ امریکہ کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں اور اس کی غلامی قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں انہیں دہشت گردیا اسلامی بنیاد پرست قرار دے کر ان پر معاشی پابندیاں عائد کردی جاتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ بھی دہشت گردی کا شکار رہا ہے اس کے دو سو سے زائد سفارت کار اور 500 سے زائد شہری 1968ء سے 1977ء تک اوواوکلے ہوما میں بم دھماکہ جیسے اقدامات دہشت گردی ہیں۔ حالیہ واشنگٹن اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی دہشت گردی کی بدترین مثالیں ہیں۔

دہشت گردی کسی بھی روپ میں ہو قابل مذمت ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ امریکی عوام کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دنیا میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ ہے؟ اور دہشت گردی کا آغاز کسی نے کیا؟ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نئے ممالک خصوصاً امریکہ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ جیسے ممالک کے عوام کے آباؤ اجداد بھی دہشت گرد ہی تھے۔

امریکہ میں آغاز میں بسنے والے یورپی باشندے کسی نہ کسی جرم میں ملوث تھے اور اپنے ممالک سے بھاگ کر امریکہ میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ یہاں بھی انھوں نے مقامی لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں کا آغاز کیا۔ چونکہ یورپی لوگ تعداد میں کم تھے وپ ریڈ انڈین (جو کہ امریکہ کے باشندے تھے) کے ساتھ دوبدو لڑائی میں غالب نہ آسکتے تھے ا س لئے انھوں نے پلان کے بارے میں سوچا اور یورپ سے ایسے کمبل لائے جوکہ چیچک کے جراثیم سے بھرے ہوئے تھے اور انھیں قدیم باشندوں میں تقسیم کردیا اس طرح وہ لاکھوں کی تعداد میں مرگئے اور اگر حالہ ہسٹری کا مطالعہ کریں تو یہ صرف امریکہ ہی تھا جس نے جاپان کے شہروں ناگاساکی اور ہیروشیما پر بم گرا کر لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو موت کی نیند سلادیا اور ہزاروں لوگوں کو ہمیشہ کیلئے معذور کردیا۔ کیا یہ حادثہ انسانی معاشرہ کیلئے ہمدردی کے جذبات رکھتا ہے۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ یہ امریکہ ہی تھا جس نے صدام حسین کو ایران کے خلاف جنگ کیلئے اکسایا تھا اور بے پناہ اسلحہ دیا تھا اور پھر 1990ء میں پہلے اسے کویت پر حملے کی ترغیب دی اور پھر اس کو بہانہ بناتے ہوئے کویت کے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرنے کیلئے اپنی افواج سعودی عرب اور کویت میں اتار دیں۔ عراق پر کئی سالوں سے پابندیاں ہیں۔ معصوم بچے خوراک اور دوائیوں کی قلت کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مررہے ہیں تو کیا یہ انسانیت پر ظلم نہیں ؟

بوسینیا، کوسوو اور چیچنیا میں ہزاروں بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرکے اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔ کشمیر اور فلسطین میں لوگوں کو بنیادی اور جائز حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے اور دنیامیں امن کے ٹھیکیدار امریکہ کی آنکھیں بند ہیں۔

اور اب افغانستان پر چڑھائی بغیر کسی ثبوت کے کیا انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے؟ کیا یہ جمہوری اقدام ہے جس کا چرچا کرتے امریکہ نہیں تھکتا؟ امریکی حکومت جس نے سیکیورٹی ایجنسیوں اور ملکی تحفظ کے نام پر عوام سے کروڑوں روپے وصول کئے کیا یہ ان کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں۔ تو سب سے پہلے تو سزا کی حقدار امریکی حکومت اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں۔ کیا ان امریکی یا دوسرے ممالک کے مرنے والوں کا خون ان افغان معصوم باشندوں سے زیادہ قیمتی ہے جو کہ امریکی بمباری سے شہید ہورہے ہیں؟ امریکی حکومت کو یہودی لابی کے اثر سے آزاد ہوتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ امریکی پالیسیاں ہی اس کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کا باعث ہیں۔ جس کا واضح ثبوت امریکہ کے افغانستان پر حملہ کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں سے ہورہا ہے۔ دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ امریکہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے اور صرف اپنے ملکی معاملات پر توجہ دے اورنیو ورلڈ آرڈر جیسے ظالمانہ قوانین کو ختم کردے۔

دنیا سے غربت، آبادی میں اضافہ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور غریب ممالک کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ جیسے مسائل کے خاتمہ سے دہشت گردی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ ترقی یافتہ ممالک کو غریب ممالک کے مسائل کے حل میں مدد دینی چاہیے اور ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کو ترقی یافتہ ممالک کے اثر سے آزاد رہتے ہوئے غریب ممالک کو آسان شرائط پر قرضے دینے چاہئیں۔

علاقائی تنظیموں کو مضبوط بنایا جانا چاہیے اور مختلف شعبوں میں ممبر ممالک کے درمیان تعاون کے سمجھوتوں پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ اسلامی ممالک کو خاص طور پر اپنے اختلافات ختم کرتے ہوئے اپنے مسائل باہمی گفت و شنید سے حل کرنے چاہئیں۔ اوآئی سی کی تنظیم اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ دہشت گردقوتوں کے خلاف ایک مضبوط اسلامی بلاک فعال کردار ادا کرسکتا ہے۔

connetion successful
You will be the first to comment here.
Cancel