دنیا کے ہر ملک کے رقبہ میں ایک سینٹی میٹر تک کا اضافہ نہیں ہوااور نہ ہی ہونے کا امکان ہے۔کوئی بھی ملک اپنی حدود میں اضافہ کو خوش آمدید کہہ لے گا مگر اس میں کمی کو برداشت نہیں کر سکتا۔تمام دنیا نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کیلے فوجیں تعینات کر رکھی ہیں۔ملکوں کی زمین کا رقبہ نہ کم ہو سکتا ہے نہ بڑھ سکتا ہے۔مگر تمام دنیا میں آبادی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔دنیا میں سب سے آبادی والا ملک چین ہے ' اسکے بعد بھارت ہے۔میکسیکو سٹی اور جاپان کا ٹوکیو دنیا کی آبادی کے بڑے شہر ہیں۔ٹوکیو میں تقریباًہر فرد کے پا س کار ہے شہر کی بڑی شہراوں پر بعض اوقات گزرنے کیلیے بہت وقت درکار ہوتا ہے۔مصروف ترین زندگی کے دور میں ہر شخص کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ پیدل چل کر کام کرے۔گاڑیاں 'بسیں 'ٹیکسیاں ' موٹر سا ئیکلیں 'ٹرک ٹرالے اور سائیکلیں سڑکوں پر جال پھیلائے نظر آتی ہیں۔
بڑے شہروں میں کار پارکنگ کا بڑا مسئلہ ہے۔جاپان میں اخباری رپوٹر کسی ہنگامی صورتحال کی رپورٹنگ کے لئے ہیلی کاپٹراستعمال کرتے ہیں۔یورپ میں اور کئی ترقی یافتہ ممالک میں ٹریفک کے کنٹرول کرنے کے لئے زمین دوز ریل گاڑیوں کا نظام قا ئم ہے۔جہاں شہرکی آبادی کا بڑا ہجوم ان گاڑیوں میں سفر کرتا ہے۔پیرس اور فرینکفرٹ میں ہر دو منٹ بعد زمین دوز ریل گاڑی ہر علاقے سے چلائی جاتی ہے۔دیگر علا قوں میں 4 منٹ کے وقفہ سے کم وقفہ کے بعد زمین دوز گاڑیاں وقت کی پابندی سے چلتی ہیں۔پیدل چلنے والوں کا ہجوم سڑکوں پر بس سٹاپوں پر وقت ضائع نہیں کرتا۔
ان بڑے شہروں میں رہنے والے افراد کے پاس شہر میں چلنے والی زمین دوز گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل اور راستوں کے روٹ کا نقشہ ہوتا ہے۔حکومت نے سہولتوں کے لئے ماہانہ ریل پاس یا ہفتہ وار ٹکٹ کارڈ جاری کئے ہوئے ہوتے ہیں۔جس میں سفر کرنے والے کی تصویر بھی چسپاں کی ہو تی ہے۔جلدی میں ٹکٹ نہ خریدنے پر یہ سہولت فراہم کی گئی ہے۔بڑے شہر وں میں بسیں اور زمین دوز گاڑیاں 24 گھنٹے دن رات بغیر کسی وقفہ کے چلتی رہتی ہیں۔
مغربی ممالک میں اور خاص طور پر جرمنی میں بچوں کی کلاسوں میں ابتدائی سالوں میں ہی ٹریفک کے قوانین پڑھانا ان کے تعلیمی سلیبس کا حصہ ہوتے ہیں 'کیونکہ حکومت کو علم ہے کہ ہر بچے نے کار ضرور رکھنی ہے۔وہاں کاریں بنتی ہیں جس کی وجہ سے سستی بھی ہیں۔ان ممالک میں فیکٹری کا ہر مزدور کار پر کا م کرنے آتا ہے۔تعلیمی اداروں میں جہاں ہمارے ہا ں سائنس روم ہوتا ہے وہا ں سائنس روم کے علاوہ ٹریفک روم بھی ہوتا ہے۔سکول کے ٹریفک روم میں ایک چھوٹی سی کار کا ڈھانچہ رکھا ہوتا ہے۔مزید یہ کہ ملک کے ٹریفک کے نئے قوانین سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔جب بچے ہائی سکول میں پہنچتے ہیں تو تقریباً مکمل ڈرائیور بن گئے ہوتے ہیں۔
جرمنی میں گاڑی کا لائسنس حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے۔یہ لائسنس وہاں کی ٹریفک پولیس جاری کرتی ہے۔لائسنس جاری کرنے سے پہلے ہر گاڑی کی مکمل چیکنگ ہوتی ہے جسے ٹریفک پولیس کا عملہ چیک کرتا ہے۔برف باری کے دنوں میں گاڑی کے ٹائروں پر لوہے کے سنگل چڑھا ئے جاتے ہیں تاکہ برف سے گاڑی پھسل نہ جائے۔اگر گاڑی میں کوئی خرابی پائی جائے تو لائسنس جاری نہیں کیا جاتا۔گاڑی کی چیکنگ کے بعد ٖڈرائیور کا امتحان ہوتا ہے۔اس سے ٹریفک کے اصولوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔گاڑی کے درست ہونے اور سوالات کے صحیح جوابات دینے کے بعد گاڑی کا لائسنس جاری ہوتا ہے۔لائسنس کی مدت پوری ہو نے کے بعدگاڑی کی چیکنگ ہوتی ہے۔
ٹیکسی ڈرائیور کے لیے بھی یہی قانون ہے مگر اسے لائسنس جاری کرنے سے پہلے اس کی سابقہ زندگی کے بارے میں جانچ پڑتال کی جا تی ہے اگر کوئی ڈرائیور کسی خطرناک جرم میں ملوث رہا ہے تو اسے بھی لائسنس نہیں دیا جاتا۔ٹیکسی ڈرائیور کو اخلاقیات کا کورس کرنا ہوتا ہے'جس کی مدت 3 ہفتہ ہوتی ہے۔جس میں مسافروں سے خوش خلقی سے پیش آنے کے طریقے اور کسی مسافر کودور یا نزدیک جانے پر انکار نہ کرنے کا بھی درس دیا جاتا ہے۔گاڑیوں میں میٹر لگے ہوتے ہیں جو درست حالت میں ہوتے ہیں 'جس سے کسی مسافر کو شکات نہیں ہوتی۔ویسے لوگ بھی تعلیم یافتہ ہیں ہر ایک کو جہاں جا نا ہو تا ہے اس جگہ کے فاصلے کا پتہ ہوتا ہے راستوں پر بجلی کے کھمبوں پر نمبر لگے ہوتے ہیں جن کا فاصلہ مقرر ہوتا ہے مسافر جب بیٹھتا ہے تو کئی دفعہ پول کا نمبر یاد رکھتا ہے۔اترنے پر مقررہ پیسے دے دیتا ہے۔
اگر کسی ٹیکسی ڈرائیورنے دور کا طویل سفر کرنا ہوتو ڈرائیور ٹیکسی میں لگے ہوئے موبائل سے اپنے گھر اور ٹیکسی سٹینڈ پر اطلاع دے دیتا ہے۔ہر دو یا تین کلو میٹر کی مسافت کے بعد پول نمبر کا حوالہ دے کر بتاتا رہتا ہے کہ میں یہا ں سے گزر رہا ہو ں اس لیے کہ حادثہ ہو جائے تووارثوں کو اور پولیس کو ڈرائیو ر کے بتائیے ہوئے کھمبے کے نمبر سے اس کو تلاش کر نا آسان ہو۔اگر علاقہ اس ڈرائیور کی رہائشی جگہ سے بہت دور ہواور وہ دوسرے پولیس سٹیشن کے علا قہ میں ہو تو اس کے علاقے کی پولیس جائے حادثہ کے علاقے کی پولیس کو اطلاع کر دیتی ہے۔جو چند لمحوں میں پہنچ جاتی ہے۔جن ملکو ں میں شرح خواندگی 100 فیصد اور بچپن سے تعلیمی ادارورں میں ڈرائیونگ کی تعلیم پڑھی اور سیکھی جا تی ہو' وہا ں حادثات بہت کم ہو تے ہیں ۔ٹریفک میں نئے قانون یا تبدیلی کی اطلاع شہریوں کو ہر ذرائع ابلاغ واظہار سے کر دی جا تی ہے۔ایسے ملکوں میں نوجوان لڑکیا ں بھی ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔آپ اپنے گھر یا کسی مارکیٹ سے ٹیکسی سٹینڈ پر فون کر دیں۔ڈرائیور ٹیکسی لے کر فوراً آ جا ئے گا۔کسی بھی جگہ جانے کے لیے انکار نہیں کرے گا۔
پاکستان کی آبادی کا 65 فیصد حصہ دیہاتوں میں آباد ہے۔اس لیے ٹریفک کا بہاؤدیہاتوں سے شہروں کی جانب زیادہ ہوتا ہے ۔غلے سے بھرے ٹرک روزانہ سبزیاں اور پھل شہروں میں لاتے ہیں۔شہروں سے دوسرے شہروں میں آمدورفت کے لیے ہر قسم کی ٹریفک چلتی ہے۔پنجاب کی 7 کروڑ 50 لاکھ آبادی کے لیے صرف 28 ہزار بسیں ہیں۔ 3 لاکھ 87 ہزار افراد کے پاس اپنی کاریں ہیں۔ 9 لاکھ 85 ہزار افراد موٹر سائیکل کے مالک ہیں۔ 12 ہزار 807 ٹیکسیاں ' 19 ہزار 358 رکشے اور 23 ہزار 337 ویگنیں چل رہی ہیں۔ پنجاب میں 37 ہزار ٹرک '25 ہزار 882 ڈلیوری وین اور 4 لاکھ 8 ہزار 296 آٹو موبائیل رجسڑ ہیں۔
لاہور ہر قسم کی گاڑیو ں کی تعداد کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔لاہور میں ایک لاکھ 89 ہزار 967 کاریں' 2 لاکھ 63 ہزار 13 موٹر سائیکلیں' 8 ہزار آٹو رکشہ ایک ہزار 861 ٹیکسیاں جبکہ 2 ہزار 310 بسیں ' 7 ہزار 519 ویگنیں اور 4 ہزار ٹرک موجود ہیں۔راولپنڈی میں 46 ہزار کاریں' 68 ہزار مو ٹر سائیکلیں' 5 ہزار ٹرک ' 6 ہزار ڈلیوری ویگنیں' 5 ہزار مسا فر ویگنیں ' 2 ہزار بسیں ' 4 ہزار ٹیکسیاں 'اور 389 آٹو رکشہ ہیں۔ملتان گاڑیوں کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔چوتھے نمبر پر فیصل آ باد آتا ہے۔گوجرانوالہ میں کل 72197 گاڑیاں رجسڑ ہیں۔اس طرح یہ شہر پانچویں نمبر پر آتا ہے۔
لاہور میں 92 ٹریفک سگنلز ہیں جن میں سے 34 مکمل خراب ہیں۔ا ن پوائنٹس پر اہلکار ڈیوٹی بھی کم دیتے ہیں۔صوبائی دارالحکومت کو ٹر یفک کنٹرول کر نے کے لئے 26 سیکٹروں میں تقسیم کر کے 432 پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں۔مگر کم نفری کے باعث 242 پوائنٹس پر ڈیوٹی ہوتی ہے۔ٹریفک پولیس لاہور میں 250 سارجنٹس کام کر رہے ہیں۔جن میں 42 انسپیکٹر ' 64 سب انسپیکٹر اور 144 اے ایس آئی شامل ہیں۔ان 250 اہلکاروں کے لیے صرف 99 موٹر سائیکلیں ہیں۔جبکہ 79 موٹر سائیکلیں خراب ہو چکی ہیں۔اس طرح سیکٹرز پر 250 سارجنٹس 99 موٹر سائیکلوں پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔لاہور ٹریفک پو لیس کا عملہ 1602 کی تعداد میں منظور شدہ ہے مگر حاضر ڈیوٹی بہت کم رہتے ہیں۔
شہروں میں عمارتی سامان سے بھرے بڑے بڑے ٹرک سڑکوں کو خراب کر دیتے ہیں۔اینٹوں اور بجری سے لوڈ وزنی ٹرکوں کا بوجھ سڑکیں برداشت نہیں کر سکتیں جو آئے دن ٹوٹتی رہتی ہیں۔با رش کے دنوں میں سڑکو ں پر پانی جمع رہتا ہے۔شہروں میں ریڑے ' گدھے 'تانگے اور دیگر تیز رفتار گاڑیاں ایک ہی سڑک پرچلتی ہیں جس سے اکثر ٹریفک بند ہو جاتی ہے۔شہروں کے جن علاقوں کی سڑکیں خراب ہیں واہا ں رکشہ اور ٹیکسی والے بھی نہیں جا تے۔اگر سالوں بعد کہیں سڑکوں کی مرمت کرائی جاتی ہے تو چند دنوں کے بعد ٹرکوں کی بھاری ٹریفک سے سڑکیں پھر ٹوٹ جاتی ہیں۔
ڈیزل اور پٹرول کی گا ڑیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں عام لوگو ں کو کھانسی اور بے شمار بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔گلے 'ناک کان 'اور جلد کی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔شہروں میں تو تازی ہوا بھی میسر نہیںآتی۔بڑی بڑی عمارتیں اور ٹریفک کا دھواں شہر یوں کی صحت برباد کر دیتا ہے۔ٹریفک کا شور انسان کی قوت سماعت کو کم کر دیتا ہے۔محکمہ ماحولیات اس سلسلہ میں بڑی کو شش کر رہا ہے کہ مخصوص علاقوں میں مثلاًسکول' ہسپتال 'اور رہا ئشی جگہوں پرگاڑی کے ہارن بہت کم آوازمیں استعمال کریں۔گاڑیوں اورٹرکوں میں تیز اور زیادہ آواز والے جدید ہارن لگائے گئے ہیں جو تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
تیز رفتار ی ہر حال میں نقصان دہ ہے۔گاڑیاں سہولت کے لیے بنائی گئی ہیں۔انسان کو ان سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔لاپرواہی سے تیز رفتاری میں کئی لوگ اپنی جانیں ضائع کر ابیٹھتے ہیں۔کئی راہ گیران حادثات کا شکار ہو جا تے ہیں۔ٹریفک سگنلز کا اشارہ کھلنے سے پہلے گاڑیاں چلا دیتے ہیں'کئی مسافر گر کر زخمی ہو جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں ہر کام کے لئے تر بیت دی جا تی ۔وہاں کوئی فرد ہوٹل یا حجام کی دکان پر اس وقت تک کام نہیں کر سکتاجب تک وہ کسی تربیتی ادارے سے سند یافتہ نہ ہو۔ہو ٹل میں کام کرنے سے پہلے اسے ہوٹل کے ہر شعبے کی تربیت لینی ضروری ہے۔کام کے علاوہ لباس 'خوش اخلاقی اور دھمے پن سے بات کرنے کے اصول سمجھائے جاتے ہیں۔تربیت کے بعد اس کو سند ملتی ہے 'اس طرح یورپ میں کئی جوانو ں کو انسانی مجسمہ پر بال لگاتے تراشتے دیکھا ہے جو اپنے گھروں میں بھی مشق کرتے ہیں۔ڈرائیورز کو تربیت تو جیسے پہلے بتائی گئی ہے ابتدائی سکول کے دوران ہی دی جاتی ہے۔
ٹریفک پولیس نے ڈرائیورز کے لئے ہدایت پر مبنی کتابچہ شائع کیا ہے جس میں پاکستانی ڈرائیورز کو ضروری ہدایات دی گئی ہیں مگر اسے بہت کم لوگ پڑھتے ہیں۔بسوں اور ویگنوں 'رکشہ اور ٹیکسیوں کے ڈرائیور ز اکثر غیر تعلیم یافتہ ہوتے ہیں'کسی واقف ڈرائیور سے چند دن گاڑی چلانے کی تربیت حاصل کر کے ڈرائیور بن جاتے ہیں۔حادثات پر کنٹرول کرنے کیلئے یہ لازم ہے کہ ڈرائیونگ ادارے کھولے جائیں۔ڈرائیور زکو ان اداروں میں تربیت دی جائے۔نئے ڈرائیورزکو اس وقت تک لائسنس نہ دیا جائے جب تک اپنی تربیت حاصل کر کے سند یا فتہ نہ ہو جائے۔ہوتا یہی ہے کہ چند دن کی معمولی پرائیویٹ تربیت سے گاڑی چلا کر لائسنس حاصل کر لیتے ہیں۔ڈرائیوروں کے لئے ضروری ہے کہ:
پاکستان میں کسی بھی ملازمت کے لئے پرائیویٹ اداروں میں خصوصی طور پر تجربہ مانگا جاتا ہے۔لوگ فرضی اور جعلی تجر بہ کے سر ٹیفیکیٹ دکھا دیتے ہیں یا غیر معیاری اداروں کی سند دکھا کر کام چلا لیتے ہیں یا چند دنوں کے تجربہ کو سالوں کا بتا کر کام کرا لیتے ہیں مگر کسی تربیتی ادارہ کا کو ئی سر ٹیفیکیٹ نہیں دکھا سکتے کیونکہ ایسے ادارے قائم ہی نہیں ہیں۔تر قی یا فتہ ممالک میں ہر کام کے لئے تر بیتی ادارے موجود ہیں۔ان اداروں کے سرٹیفیکیٹ ہی تجربہ کا ثبوت ہوتے ہیں۔
ٹریفک کے حادثات کو روکنے کے لئے ٹریفک پولیس اپنی نگرانی میں سرکاری طور پر ڈرائیونگ سکول قائم کر کے ان کو مقرر وقت پر تربیت دیں۔ڈرائیونگ سیکھنے کے لئے تعلیم کی حد مقرر کرے۔امیدوار کم ازکم میٹرک پاس ہو جو تربیت میں پڑھنے لکھنے کا کام بھی کر سکے اور تربیت بھی احسن طریقے سے حا صل کر سکے ۔بغیر تربیتی کورس اور سند حاصل کرنے کے ڈرائیونگ لا ئسنس نہ دیا جائے۔
Did you ever get stuck up in a traffic jam?
What do you think is the primary cause of traffic jams?
Why do residents in Singapore prefer public transport over private vehicles?
All the people on the road want to enjoy a very comfortable journey and reach their destination as fast as possible. People prefer using their own vehicle over public transport for the sake of saving time.
The traffic jams and long tailbacks in cities in Pakistan have become a routine matter, forcing people to take longer alternative routes, which entail more costs. Who do you think is responsible for causing regular roadblocks? Only a few research projects have been launched and completed until now to identify the factors behind the road blockades.
The main problem of traffic jams is the influx of so many more vehicles on the roads every year, or rather every month. Many new vehicles being registered daily make their way to the roads with no extra capacity to accommodate them.
The Singaporean government provides the public with a variety of transportation modes, including buses, rail routes, and taxis. This is to promote the use of public transport over the private one. About 5,308 million trips are made on daily basis on the public transport system! Another reason why residents in Singapore use public transport is that the government charges a high amount on private vehicles.
Broken roads can be regarded as the second major cause of roadblocks. The roads wanting repair also lead to accidents.
An under-construction road also hinders the normal flow of traffic. It is unfortunate that roads are frequently dug up for only replacing faulty sewerage lines with somewhat better ones that too are faulty and have insufficient capacity. That is why the city routes can usually be seen as being constructed and reconstructed.
The fourth major cause of traffic problems in cities is the inappropriate parking of vehicles. People show irresponsible attitude while parking their vehicles outside the mosques, schools, offices, shopping malls, and other public places. It shows that they least care for the other motorists, pedestrians and people on the sidewalk.
Traffic jams can be overcome by increasing the capacity of roads, improve the road quality, and discouraging the entry of new vehicles.